وہ شہر محبت جہاں مصطفیٰ ہیں | Wo Shehr-e-Mohabbat Jahan Mustafa Hain Lyrics in Urdu
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سے کنکر، وہ چاندی سی مٹی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
قدم جس زمیں پر رکھے ہیں نبی نے
وہاں کھول رکّھے ہیں در روشنی نے
وہ گلیاں جہاں چلتے تھے میرے آقا
وہاں دل بچھانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جو پوچھا نبی نے کہ کچھ گھر بھی چھوڑا
تو صدیقِ اکبر کے ہونٹوں پہ آیا
وہاں مال و دولت کی کیا ہے حقیقت
جہاں دل لٹانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جو دیکھا ہے روئے جمالِ رسالت
تو بولے عمر ، مصطفیٰ جانِ رحمت !
بڑی آپ سے دشمنی تھی مگر اب
غلامی میں آنے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جہادِ محبّت کی آواز گونجی
کہا حنظلہ نے یہ دلہن سے اپنی
اجازت اگر دو تو جامِ شہادت
لبوں سے لگانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
اُدھر دیدِ آقا میں ہر دم تڑپتے
اِدھر ہر گھڑی ماں کی خدمت میں رہتے
اویس اپنی حالت بتاتے بھی کس کو
مدینے میں جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
ستم کا سبب کوئ پوچھے تو جا کر
کہیں گے بلالِ حبش مسکرا کر
تڑپتے سسکتے ہوئے اُن کی خاطر
میرا جاں سے جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
ستاروں سے یہ چاند کہتا ہے ہر دم
تمہیں کیا بتاؤں دو ٹکڑوں کا عالم
اشارے میں آقا کے اتنا مزہ تھا
کہ پھر ٹوٹ جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ ننھا سا اصغر، وہ ایڑی رگڑ کر
یہی کہہ رہا ہے وہ خیمے میں رو کر
اے بابا ! میں پانی کا پیاسہ نہیں ہوں
میرا سر کٹانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جو بچّے گئے بدر میں سب سے چھپ کر
جنہوں نے اڑایا ابوجہل کا سر
خدا کی قسم اُن کو دولھا بنا کر
گلے سے لگانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ آقا کی مسجد، وہ آقا کا گنبد
وہ آقا کی جالی، وہ آقا کا روضہ
تصوُّر میں تصویر اُنکی بنا کر
وہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
عجب کیفیت آنے لگتی ہے دل پر
عجب بیخودی چھانے لگتی ہے دل پر
مدینے کی جب چھیڑ دے کوئی باتیں
تو نعتیں سنانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
دیوانہ یہ مشک و حنا کا نہیں ہے
کوئی عطر بھی دل کو بھاتا نہیں ہے
مہکنے کی خاطر نبی کا پسینہ
بدن پہ لگانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
تجھے دیکھ کر مسکرائیگی جنّت
تِرے گر تلک چل کے آئیگی جنّت
کبھی دیکھ تو ماں سے کہہ کر، میری ماں !
تِیرا سر دبانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جو دیکھا ہے آقا کے قدموں کا پتّھر
تو کیا حال دل کا بتاؤں، اے اظہر !
کبھی سر پہ رکھنے کو دل چاہتا ہے
کبھی سر جھکانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
شاعر:
مولانا اظہر فاروقی بریلوی
نعت خوان:
طاهر رضا رامپري
زوہیب اشرفی
معین قادری بنگلور
حافظ عمر فاروق نقشبندي
محمد انس نذير
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سے کنکر، وہ چاندی سی مٹی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
قدم جس زمیں پر رکھے ہیں نبی نے
وہاں کھول رکّھے ہیں در روشنی نے
وہ گلیاں جہاں چلتے تھے میرے آقا
وہاں دل بچھانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جو پوچھا نبی نے کہ کچھ گھر بھی چھوڑا
تو صدیقِ اکبر کے ہونٹوں پہ آیا
وہاں مال و دولت کی کیا ہے حقیقت
جہاں دل لٹانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جو دیکھا ہے روئے جمالِ رسالت
تو بولے عمر ، مصطفیٰ جانِ رحمت !
بڑی آپ سے دشمنی تھی مگر اب
غلامی میں آنے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جہادِ محبّت کی آواز گونجی
کہا حنظلہ نے یہ دلہن سے اپنی
اجازت اگر دو تو جامِ شہادت
لبوں سے لگانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
اُدھر دیدِ آقا میں ہر دم تڑپتے
اِدھر ہر گھڑی ماں کی خدمت میں رہتے
اویس اپنی حالت بتاتے بھی کس کو
مدینے میں جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
ستم کا سبب کوئ پوچھے تو جا کر
کہیں گے بلالِ حبش مسکرا کر
تڑپتے سسکتے ہوئے اُن کی خاطر
میرا جاں سے جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
ستاروں سے یہ چاند کہتا ہے ہر دم
تمہیں کیا بتاؤں دو ٹکڑوں کا عالم
اشارے میں آقا کے اتنا مزہ تھا
کہ پھر ٹوٹ جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ ننھا سا اصغر، وہ ایڑی رگڑ کر
یہی کہہ رہا ہے وہ خیمے میں رو کر
اے بابا ! میں پانی کا پیاسہ نہیں ہوں
میرا سر کٹانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جو بچّے گئے بدر میں سب سے چھپ کر
جنہوں نے اڑایا ابوجہل کا سر
خدا کی قسم اُن کو دولھا بنا کر
گلے سے لگانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ آقا کی مسجد، وہ آقا کا گنبد
وہ آقا کی جالی، وہ آقا کا روضہ
تصوُّر میں تصویر اُنکی بنا کر
وہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
عجب کیفیت آنے لگتی ہے دل پر
عجب بیخودی چھانے لگتی ہے دل پر
مدینے کی جب چھیڑ دے کوئی باتیں
تو نعتیں سنانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
دیوانہ یہ مشک و حنا کا نہیں ہے
کوئی عطر بھی دل کو بھاتا نہیں ہے
مہکنے کی خاطر نبی کا پسینہ
بدن پہ لگانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
تجھے دیکھ کر مسکرائیگی جنّت
تِرے گر تلک چل کے آئیگی جنّت
کبھی دیکھ تو ماں سے کہہ کر، میری ماں !
تِیرا سر دبانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جو دیکھا ہے آقا کے قدموں کا پتّھر
تو کیا حال دل کا بتاؤں، اے اظہر !
کبھی سر پہ رکھنے کو دل چاہتا ہے
کبھی سر جھکانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
شاعر:
مولانا اظہر فاروقی بریلوی
نعت خوان:
طاهر رضا رامپري
زوہیب اشرفی
معین قادری بنگلور
حافظ عمر فاروق نقشبندي
محمد انس نذير
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں