وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں | Wo Shehr-e-Mohabbat Jahan Mustafa Hain Lyrics in Urdu
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
وہ سونے سے کنکر، وہ چاندی سی مِٹّی
نظر میں بسانے کو دل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
جو پوچھا نبی نے کہ کچھ گھر بھی چھوڑا
تو صدّیقِ اکبر کے ہونٹوں پہ آیا
وہاں مال و دولت کی کیا ہے حقیقت
جہاں جاں لٹانے کو دل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
جہادِ محبّت کی آواز گونجی
کہا حنظلہ نے یہ دلہن سے اپنی
اجازت اگر دو تو جامِ شہادت
لبوں سے لگانے کو دل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
ستاروں سے یہ چاند کہتا ہے ہر دم
تمہیں کیا بتاؤں وہ ٹکڑوں کا عالم
اشارے میں آقا کے اتنا مزہ تھا
کہ پھر ٹوٹ جانے کو دل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
وہ ننھا سا اصغر، وہ ایڑی رگڑ کر
یہی کہہ رہا تھا وہ خیمے میں رو کر
اے بابا ! میں پانی کا پیاسا نہیں ہوں
میرا سر کٹانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
جو دیکھا ہے روئے جمالِ رسالت
تو، طاہر ! عمر مصطفٰی سے یہ بولے
بڑی آپ سے دشمنی تھی مگر اب
غلامی میں آنے کو دل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
شاعر:
طاهر رضا رامپري
نعت خوان:
طاهر رضا رامپري
حافظ عمر فاروق نقشبندي
محمد انس نذير
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
وہ سونے سے کنکر، وہ چاندی سی مِٹّی
نظر میں بسانے کو دل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
جو پوچھا نبی نے کہ کچھ گھر بھی چھوڑا
تو صدّیقِ اکبر کے ہونٹوں پہ آیا
وہاں مال و دولت کی کیا ہے حقیقت
جہاں جاں لٹانے کو دل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
جہادِ محبّت کی آواز گونجی
کہا حنظلہ نے یہ دلہن سے اپنی
اجازت اگر دو تو جامِ شہادت
لبوں سے لگانے کو دل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
ستاروں سے یہ چاند کہتا ہے ہر دم
تمہیں کیا بتاؤں وہ ٹکڑوں کا عالم
اشارے میں آقا کے اتنا مزہ تھا
کہ پھر ٹوٹ جانے کو دل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
وہ ننھا سا اصغر، وہ ایڑی رگڑ کر
یہی کہہ رہا تھا وہ خیمے میں رو کر
اے بابا ! میں پانی کا پیاسا نہیں ہوں
میرا سر کٹانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
جو دیکھا ہے روئے جمالِ رسالت
تو، طاہر ! عمر مصطفٰی سے یہ بولے
بڑی آپ سے دشمنی تھی مگر اب
غلامی میں آنے کو دل چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو دل چاہتا ہے
شاعر:
طاهر رضا رامپري
نعت خوان:
طاهر رضا رامپري
حافظ عمر فاروق نقشبندي
محمد انس نذير
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سے کنکر، وہ چاندی سی مِٹّی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جو پوچھا نبی نے کہ کچھ گھر بھی چھوڑا
تو صدّیقِ اکبر کے ہونٹوں پہ آیا
وہاں مال و دولت کی کیا ہے حقیقت
جہاں جاں لٹانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جہادِ محبّت کی آواز گونجی
کہا حنظلہ نے یہ دلہن سے اپنی
اجازت اگر دو تو جامِ شہادت
لبوں سے لگانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
ستاروں سے یہ چاند کہتا ہے ہر دم
تمہیں کیا بتاؤں وہ ٹکڑوں کا عالم
اشارے میں آقا کے اتنا مزہ تھا
کہ پھر ٹوٹ جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ ننھا سا اصغر، جو ایڑی رگڑ کر
یہی کہہ رہا تھا وہ خیمے میں رو کر
اے بابا ! میں پانی کا پیاسا نہیں ہوں
میرا رن میں جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جو دیکھا ہے روئے جمالِ رسالت
تو، طاہر ! عمر مصطفٰی سے یہ بولے
بڑی آپ سے دشمنی تھی مگر اب
غلامی میں آنے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
شاعر:
طاهر رضا رامپري
نعت خوان:
زوہیب اشرفی
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سے کنکر، وہ چاندی سی مِٹّی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جو پوچھا نبی نے کہ کچھ گھر بھی چھوڑا
تو صدّیقِ اکبر کے ہونٹوں پہ آیا
وہاں مال و دولت کی کیا ہے حقیقت
جہاں جاں لٹانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جہادِ محبّت کی آواز گونجی
کہا حنظلہ نے یہ دلہن سے اپنی
اجازت اگر دو تو جامِ شہادت
لبوں سے لگانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
ستاروں سے یہ چاند کہتا ہے ہر دم
تمہیں کیا بتاؤں وہ ٹکڑوں کا عالم
اشارے میں آقا کے اتنا مزہ تھا
کہ پھر ٹوٹ جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ ننھا سا اصغر، جو ایڑی رگڑ کر
یہی کہہ رہا تھا وہ خیمے میں رو کر
اے بابا ! میں پانی کا پیاسا نہیں ہوں
میرا رن میں جانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
جو دیکھا ہے روئے جمالِ رسالت
تو، طاہر ! عمر مصطفٰی سے یہ بولے
بڑی آپ سے دشمنی تھی مگر اب
غلامی میں آنے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
شاعر:
طاهر رضا رامپري
نعت خوان:
زوہیب اشرفی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں