کعبہ دکھا دے مولیٰ | Kaba Dikha De Maula Lyrics in Urdu
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ
!
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
عمر بچی ہے میری کہاں
مر ہی نہ جاؤں، مولیٰ ! یہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
کبھی گرد کعبے کے میں بھی تو گھوموں
کبھی میں بھی کعبے کی چادر کو چوموں
مجھے بھی دکھا دے، خدایا ! حرم وہ
برستی ہے رحمت کی بارش جہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
کبھی سنگِ اسود کا بوسہ عطا ہو
کہ مرنے سے پہلے ختم ہر خطا ہو
تمنّا، میرے رب ! یہ پوری تو کر دے
اسی جستجو میں ہوں جیتا یہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
میں اکثر ہی یادوں میں کعبے کو پہنچا
میں کتنا ہوں تڑپا، میں کتنا ہوں رویا
ہے بے چَین، مولیٰ ! یہ دل میرا کتنا
کروں کیسے میں یہ لبوں سے بیاں ؟
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
کئی ہو کے آئے ہیں دیکھو وہاں سے
کہ میں صرف جا ہی نہ پایا یہاں سے
زیارت حرم کی ہے کتنوں نے کر لی
تیری اب نگاۂ کرم ہو یہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
کئی لوگ جاتے ہیں ایسے حرم کو
کہ جیسے حرم ہو قدم دو قدم کو
بڑا خوب اُن کا مکدّر ہے، مولیٰ !
یہ اوقات ویسی ہے میری کہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
کہ کعبے کی رونق کو میں بھی تو دیکھوں
دکھا مجھ کو کعبہ، میرے پیارے مولیٰ !
کہ مجھ کو لگی یہ لگن، میرے مولیٰ !
کہ چوموں میں حجر اسود وہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
سنا ہے وہاں پر کہ حج ہو رہا ہے
یہ پروان سن کر یہاں رو رہا ہے
بلا لے، خدایا ! اسے بھی حرم میں
لگی آگ دل کی بجھا دے وہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
شاعر:
شفیق اللہ یار پروان
نعت خواں:
زوہیب اشرفی
سید حسان اللہ حسینی
غلام مصطفیٰ قادری
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
عمر بچی ہے میری کہاں
مر ہی نہ جاؤں، مولیٰ ! یہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
کبھی گرد کعبے کے میں بھی تو گھوموں
کبھی میں بھی کعبے کی چادر کو چوموں
مجھے بھی دکھا دے، خدایا ! حرم وہ
برستی ہے رحمت کی بارش جہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
کبھی سنگِ اسود کا بوسہ عطا ہو
کہ مرنے سے پہلے ختم ہر خطا ہو
تمنّا، میرے رب ! یہ پوری تو کر دے
اسی جستجو میں ہوں جیتا یہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
میں اکثر ہی یادوں میں کعبے کو پہنچا
میں کتنا ہوں تڑپا، میں کتنا ہوں رویا
ہے بے چَین، مولیٰ ! یہ دل میرا کتنا
کروں کیسے میں یہ لبوں سے بیاں ؟
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
کئی ہو کے آئے ہیں دیکھو وہاں سے
کہ میں صرف جا ہی نہ پایا یہاں سے
زیارت حرم کی ہے کتنوں نے کر لی
تیری اب نگاۂ کرم ہو یہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
کئی لوگ جاتے ہیں ایسے حرم کو
کہ جیسے حرم ہو قدم دو قدم کو
بڑا خوب اُن کا مکدّر ہے، مولیٰ !
یہ اوقات ویسی ہے میری کہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
کہ کعبے کی رونق کو میں بھی تو دیکھوں
دکھا مجھ کو کعبہ، میرے پیارے مولیٰ !
کہ مجھ کو لگی یہ لگن، میرے مولیٰ !
کہ چوموں میں حجر اسود وہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
سنا ہے وہاں پر کہ حج ہو رہا ہے
یہ پروان سن کر یہاں رو رہا ہے
بلا لے، خدایا ! اسے بھی حرم میں
لگی آگ دل کی بجھا دے وہاں
کعبہ دکھا دے، مولیٰ ! مولیٰ !
کعبہ دکھا دے، مولیٰ !
شاعر:
شفیق اللہ یار پروان
نعت خواں:
زوہیب اشرفی
سید حسان اللہ حسینی
غلام مصطفیٰ قادری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں