وہ بن میں قدم رکھ دیں تو بن جاتا ہے بن پھول | سر تا بقدم ہے تن سلطان زمن پھول تضمین کے ساتھ | Wo Ban Mein Qadam Rakh Den To Ban Jata Hai Ban Phool Lyrics in Urdu
وہ بن میں قدم رکھ دیں تو بن جاتا ہے بن پھول
جس پھول کو وہ چھو لیں وہ ہو رشکِ چمن پھول
میں کیوں کہوں کہ صرف ہے آقا کا دہن پھول
سر تا بقدم ہے تنِ سُلطانِ زَمن پھول
لب پھول دَہن پھول ذَقن پھول بدن پھول
آرام گنہگار کو اک پل نہیں مِلتا
سر سے میرے آلام کا سورج نہیں ڈھلتا
میں کیا کروں، سرکار ! میرا بس نہیں چلتا
تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہلتا
تم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہِ مِحن پھول
اللہ نے سرکار کی وہ شان بنائی
واللہ کوئی کر نہیں سکتا ہے بڑائی
حیران ہوئی دیکھ کے یہ ساری خدائی
دندان و لب و زُلف و رُخِ شہ کے فِدائی
ہیں دُرِّ عدن، لعلِ یمن، مُشکِ ختن، پھول
اے مالکِ کُل، رشکِ جہاں، شاہِ رسولاں
محبوبِ خدا، نورِ خدا، رحمتِ یزداں
ہے عرض کی احباب نہ ہوں مجھ سے پریشاں
ہوں بارِ گنہ سے نہ خجل دوشِ عزیزاں
لِلّٰہ مِری نعش کر، اے جانِ چمن پھول
کہتا ہے بشر اپنی طرح وہ ہے کمینہ
دکھلاؤ اُسے شہرِ بریلی کا قرینہ
اُس عاشقِ صادق نے بڑی بات کہی نہ
وَاللّٰہ جو مِل جائے مِرے گل کا پسینہ
مانگے نہ کبھی عِطْر، نہ پھر چاہے دُلہن پھول
اوقات، وصی ! تیری نہ ہی تیرے قلم کی
مت پوچھ یہ کہ کیسے یہ تضمین رقم کی
یہ خاص عنایت ہے نواسوں کے قدم کی
کیا بات، رضا ! اُس چمنستانِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں، حُسین اور حَسن پھول
کلام:
امام احمد رضا خان
تضمین:
سید عبدالوصی رضوی
نعت خواں:
سید عبدالوصی رضوی
جس پھول کو وہ چھو لیں وہ ہو رشکِ چمن پھول
میں کیوں کہوں کہ صرف ہے آقا کا دہن پھول
سر تا بقدم ہے تنِ سُلطانِ زَمن پھول
لب پھول دَہن پھول ذَقن پھول بدن پھول
آرام گنہگار کو اک پل نہیں مِلتا
سر سے میرے آلام کا سورج نہیں ڈھلتا
میں کیا کروں، سرکار ! میرا بس نہیں چلتا
تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہلتا
تم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہِ مِحن پھول
اللہ نے سرکار کی وہ شان بنائی
واللہ کوئی کر نہیں سکتا ہے بڑائی
حیران ہوئی دیکھ کے یہ ساری خدائی
دندان و لب و زُلف و رُخِ شہ کے فِدائی
ہیں دُرِّ عدن، لعلِ یمن، مُشکِ ختن، پھول
اے مالکِ کُل، رشکِ جہاں، شاہِ رسولاں
محبوبِ خدا، نورِ خدا، رحمتِ یزداں
ہے عرض کی احباب نہ ہوں مجھ سے پریشاں
ہوں بارِ گنہ سے نہ خجل دوشِ عزیزاں
لِلّٰہ مِری نعش کر، اے جانِ چمن پھول
کہتا ہے بشر اپنی طرح وہ ہے کمینہ
دکھلاؤ اُسے شہرِ بریلی کا قرینہ
اُس عاشقِ صادق نے بڑی بات کہی نہ
وَاللّٰہ جو مِل جائے مِرے گل کا پسینہ
مانگے نہ کبھی عِطْر، نہ پھر چاہے دُلہن پھول
اوقات، وصی ! تیری نہ ہی تیرے قلم کی
مت پوچھ یہ کہ کیسے یہ تضمین رقم کی
یہ خاص عنایت ہے نواسوں کے قدم کی
کیا بات، رضا ! اُس چمنستانِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں، حُسین اور حَسن پھول
کلام:
امام احمد رضا خان
تضمین:
سید عبدالوصی رضوی
نعت خواں:
سید عبدالوصی رضوی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں