وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے وہ سونے سے کنکر، وہ چاندی سی مٹی نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے قدم جس زمیں پر رکھے ہیں نبی نے وہاں کھول رکّھے ہیں در روشنی نے وہ گلیاں جہاں چلتے تھے میرے آقا وہاں دل بچھانے کو جی چاہتا ہے وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے جو پوچھا نبی نے کہ کچھ گھر بھی چھوڑا تو صدیقِ اکبر کے ہونٹوں پہ آیا وہاں مال و دولت کی کیا ہے حقیقت جہاں دل لٹانے کو جی چاہتا ہے وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے جو دیکھا ہے روئے جمالِ رسالت تو بولے عمر ، مصطفیٰ جانِ رحمت ! بڑی آپ سے دشمنی تھی مگر اب غلامی میں آنے کو جی چاہتا ہے وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے جہادِ محبّت کی آواز گونجی کہا حنظلہ نے یہ دلہن سے اپنی اجازت اگر دو تو جامِ شہادت لبوں سے لگانے کو جی چاہتا ہے وہ شہرِ محبّت جہاں مصطفیٰ ہیں وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے اُدھر دیدِ آقا میں ہر دم تڑپتے اِدھر ہر گھڑی ماں کی خدمت میں رہ...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں