سنو یہ سپنے کی ہے بات | سناؤں خواب کی میں یہ بات | کہ نندیا ٹوٹ گئی | Ki Nindiya Toot Gayi Lyrics in Urdu
سنو یہ سپنے کی ہے بات
میں طیبہ پہنچا تھا کل رات
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
پڑھا تھا جا کے وہاں پر نعت
ملی تھی رحمت کی سوغات
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
کل رات میں اک سپنا دیکھا
سپنے میں حسیں جلوا دیکھا
اک نور کا بہتا دریا تھا
دریا میں حسیں اک روضہ تھا
روضے پہ سنہری چادر تھی
وہ جس کی رُپہلی جھالر تھی
کہ جس کو دیکھ اٹھا میں جھوم
ادب سے اُس کو لیا تھا چوم
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
رحمت کی نورانی چھاؤں میں
طیبہ کے مقدّس گاؤں میں
گزرا وہ حسیں مکّہ دیکھا
مکّے میں حسیں کعبہ دیکھا
کعبے میں نور کی چادر تھی
وہ جس کی سنہری جھالر تھی
کچھ میری آنکھیں تھی حیران
خدا کی دیکھ رہا تھا شان
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
پھر دیکھی چھاؤں کجھوروں کی
جیسے ہوں قطاریں حوروں کی
کچھ لوگ وہاں پر بیٹھے تھے
وہ جن کے نورانی چہرے تھے
اللہ کی اطاعت کرتے تھے
قرآں کی تلاوت کرتے تھے
کی سوچا میں بھی پڑھوں قرآن
تھی جس پہ جان میری قربان
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
ظفر ! وہ سما تھا محشر کا
کیا حال کہوں اُس منظر کا
اک بھیڑ لگی تھی زمزم پر
سب جھوم رہے تھے پی پی کر
اک میرا مکدّر ایسا تھا
اس بھیڑ میں تنہا پیاسا تھا
کہ زمزم مل نہ سکا دو گھونٹ
وہاں پر پینے کی تھی چھوٹ
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
نشید خواں:
سراج خان
مفتی جمیل قاسمی
سناؤں خواب کی میں یہ بات
میں طیبہ پہنچا تھا اک رات
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
پھر دیکھی سنہری سی جالی
وہ رات بڑی تھی متواری
کچھ لوگ نبی کے روضے پر
رو رو کے پڑھتے تھے اکثر
إِنَّآ أَعْطَيْنَـٰكَ ٱلْكَوْثَرَ
تھا ورد زباں جاری سب پر
کھڑا تھا ایک طرف یہ غلام
کسی نے ہاتھ لیا تھا تھام
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
وہ گنبدِ خضرا کا منظر
تھا کتنا سہانا نور کا گھر
وَٱلَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ والے
تھے ساتھ میں صدّیق اور عمر
فرمان میرے معبود کا ہے
یہ گھر تو میرے محبوب کا ہے
ندا یہ آئی کہ، اے غلام !
ادب سے تو بھی کر لے سلام
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
اک باغ کجھوروں کا دیکھا
کیسا وہ حسیں نظّارہ تھا
کچھ لوگ وہاں پر بیٹھے تھے
سب کے نورانی چہرے تھے
ہاتھوں میں تھے قرآن لیے
یعنی رب کا فرمان لیے
جو دیکھے ایسے نیک انسان
پڑھا پھر میں نے بھی قرآن
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
نشید خواں:
نا معلوم
میں طیبہ پہنچا تھا کل رات
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
پڑھا تھا جا کے وہاں پر نعت
ملی تھی رحمت کی سوغات
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
کل رات میں اک سپنا دیکھا
سپنے میں حسیں جلوا دیکھا
اک نور کا بہتا دریا تھا
دریا میں حسیں اک روضہ تھا
روضے پہ سنہری چادر تھی
وہ جس کی رُپہلی جھالر تھی
کہ جس کو دیکھ اٹھا میں جھوم
ادب سے اُس کو لیا تھا چوم
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
رحمت کی نورانی چھاؤں میں
طیبہ کے مقدّس گاؤں میں
گزرا وہ حسیں مکّہ دیکھا
مکّے میں حسیں کعبہ دیکھا
کعبے میں نور کی چادر تھی
وہ جس کی سنہری جھالر تھی
کچھ میری آنکھیں تھی حیران
خدا کی دیکھ رہا تھا شان
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
پھر دیکھی چھاؤں کجھوروں کی
جیسے ہوں قطاریں حوروں کی
کچھ لوگ وہاں پر بیٹھے تھے
وہ جن کے نورانی چہرے تھے
اللہ کی اطاعت کرتے تھے
قرآں کی تلاوت کرتے تھے
کی سوچا میں بھی پڑھوں قرآن
تھی جس پہ جان میری قربان
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
ظفر ! وہ سما تھا محشر کا
کیا حال کہوں اُس منظر کا
اک بھیڑ لگی تھی زمزم پر
سب جھوم رہے تھے پی پی کر
اک میرا مکدّر ایسا تھا
اس بھیڑ میں تنہا پیاسا تھا
کہ زمزم مل نہ سکا دو گھونٹ
وہاں پر پینے کی تھی چھوٹ
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
نشید خواں:
سراج خان
مفتی جمیل قاسمی
سناؤں خواب کی میں یہ بات
میں طیبہ پہنچا تھا اک رات
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
پھر دیکھی سنہری سی جالی
وہ رات بڑی تھی متواری
کچھ لوگ نبی کے روضے پر
رو رو کے پڑھتے تھے اکثر
إِنَّآ أَعْطَيْنَـٰكَ ٱلْكَوْثَرَ
تھا ورد زباں جاری سب پر
کھڑا تھا ایک طرف یہ غلام
کسی نے ہاتھ لیا تھا تھام
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
وہ گنبدِ خضرا کا منظر
تھا کتنا سہانا نور کا گھر
وَٱلَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ والے
تھے ساتھ میں صدّیق اور عمر
فرمان میرے معبود کا ہے
یہ گھر تو میرے محبوب کا ہے
ندا یہ آئی کہ، اے غلام !
ادب سے تو بھی کر لے سلام
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
اک باغ کجھوروں کا دیکھا
کیسا وہ حسیں نظّارہ تھا
کچھ لوگ وہاں پر بیٹھے تھے
سب کے نورانی چہرے تھے
ہاتھوں میں تھے قرآن لیے
یعنی رب کا فرمان لیے
جو دیکھے ایسے نیک انسان
پڑھا پھر میں نے بھی قرآن
کہ نندیا ٹوٹ گئی، کہ نندیا ٹوٹ گئی
نشید خواں:
نا معلوم
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں