مرحبا کیا روح پرور ہے نظارا نور کا | صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا تضمین کے ساتھ | Marhaba Kya Rooh Parwar Hai Nazara Noor Ka Lyrics in Urdu
مرحبا کیا روح پرور ہے نظارا نور کا
فرش سے تا عرش پھیلا ہے اُجالا نور کا
تاجدارِ شرق سائل بن کے نِکلا نور کا
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
جشنِ نورانی ہے ہر جانب ہے چرچا نور کا
انجمن آرا ہوا مکّہ میں کعبہ نور کا
ماہِ حق تشریف لایا بن کے قبلہ نور کا
بارہویں کے چاند کا مُجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا ایک اِک ستارہ نور کا
بڑھ گیا پا کر جبینِ نور رُتبہ نور کا
دور پہنچا نور کی دنیا سے شہرہ نور کا
اللہ اللہ کوئی دیکھے تو نصیبا نور کا
تیرے ہی ماتھے رہا، اے جان ! سہرا نور کا
بخت جاگا نور کا، چمکا ستارا نور کا
نور کی سرکار میں آیا ہے منگتا نور کا
ہے یہی دُر بار دربارِ مُعلّیٰ نور کا
ایک مُدّت سے دلِ مضطر ہے پیاسا نور کا
میں گدا تُو بادشاہ بھر دے پِیالہ نور کا
نور دِن دونا تِرا، دے ڈال صدقہ نور کا
فرقِ انور نور کی، دستار چہرہ نور کا
سادگی میں بھی ہے اِک انداز پیارا نور کا
کجکُلاہی پر کچھ ایسا رُعب چھایا نور کا
تاج والے ! دیکھ کر تیرا عِمامہ نور کا
سر جُھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا
کِس قدر مسرور ہے ہر ایک منگتا نور کا
سب کو قسمت سے سِوا مِلتا ہے حصّہ نور کا
بِھیڑ ہے دربار میں، جاری ہے صدقہ نور کا
جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا
نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا
تجھ سے مکّہ نور کا، تجھ سے مدینہ نور کا
تجھ سے قبلہ نور کا، ہے تجھ سے کعبہ نور کا
تجھ سے جس رِشتہ کو نسبت ہے وہ رِشتہ نور کا
تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا
بخت اَللّٰہُ غنی عُثْماں ! تمہارا نور کا
اخترِ قسمت ہے یا ماہِ دو ہفتہ نور کا
خلعتِ نورٌ علٰی نورٍ مِلا کیا نور کا
نور کی سرکار سے پایا دوشالہ نور کا
ہو مبارک تم کو، ذُو النُّورَین ! جوڑا نور کا
چاندنی لاتا جدھر اُنگلی اُٹھاتے مہد میں
نور برساتا جدھر اُنگلی اُٹھاتے مہد میں
با ادب آتا جدھر اُنگلی اُٹھاتے مہد میں
چاند جُھک جاتا جدھر اُنگلی اُٹھاتے مہد میں
کیا ہی چلتا تھا اِشاروں پر کِھلونا نور کا
دونوں تاروں میں ہے خورشیدِ نُبُوَّت کی چمک
دونوں پھولوں میں ہے گُلزارِ رسالت کی مہک
دونوں شہزادوں میں ہے شاہِ دو عالم کی جھلک
ایک سینے تک مُشَابِہ، اِک وہاں سے پاؤں تک
حُسنِ سبطین اِن کے جاموں میں ہے نیما نور کا
یہ ادا، یہ طور، یہ اندازِ شاہِ دو جَہاں
ہو بہُو گویا سراپائے حَسینَ لا مکاں
جیسے شمعِ مَنْ رَآنِي قَدْ رَأَى الْحَق ضَو فِشاں
صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے مِلنے سے عِیاں
خطِّ تَواَم میں لکھا ہے یہ دو وَرقہ نور کا
کس قدر شفّاف ہے آئِیْنَۂ نوری نہاد
جس کے دیکھے سے خدا بیساختہ آتا ہے یاد
بے نیازِ ہر ستایش، ما ورائے حسنِ داد
کٓ گیسو، ہٰ دَہن، یٰ ابرُو، آنکھیں عٓ صٓ
کٓھٰیٰعٓصٓ اُن کا ہے چہرہ نور کا
یہ قصیدہ جو حدِ فکرِ رسا سے دُور ہے
جو مضامیں کی بلندی میں بہت مشہور ہے
میں کروں تخمیس، اختر ! کب مِرا مقدور ہے
بس رضا و احمد نوری کا فیضِ نور ہے
ہو گئی تضمین بھی بڑھ کر قصیدہ نور کا
کلام:
امام احمد رضا خان
تضمین:
مولانااختر الحامدی
نعت خواں:
محمد رفیق رضا قادری رضوی
فرش سے تا عرش پھیلا ہے اُجالا نور کا
تاجدارِ شرق سائل بن کے نِکلا نور کا
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
جشنِ نورانی ہے ہر جانب ہے چرچا نور کا
انجمن آرا ہوا مکّہ میں کعبہ نور کا
ماہِ حق تشریف لایا بن کے قبلہ نور کا
بارہویں کے چاند کا مُجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا ایک اِک ستارہ نور کا
بڑھ گیا پا کر جبینِ نور رُتبہ نور کا
دور پہنچا نور کی دنیا سے شہرہ نور کا
اللہ اللہ کوئی دیکھے تو نصیبا نور کا
تیرے ہی ماتھے رہا، اے جان ! سہرا نور کا
بخت جاگا نور کا، چمکا ستارا نور کا
نور کی سرکار میں آیا ہے منگتا نور کا
ہے یہی دُر بار دربارِ مُعلّیٰ نور کا
ایک مُدّت سے دلِ مضطر ہے پیاسا نور کا
میں گدا تُو بادشاہ بھر دے پِیالہ نور کا
نور دِن دونا تِرا، دے ڈال صدقہ نور کا
فرقِ انور نور کی، دستار چہرہ نور کا
سادگی میں بھی ہے اِک انداز پیارا نور کا
کجکُلاہی پر کچھ ایسا رُعب چھایا نور کا
تاج والے ! دیکھ کر تیرا عِمامہ نور کا
سر جُھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا
کِس قدر مسرور ہے ہر ایک منگتا نور کا
سب کو قسمت سے سِوا مِلتا ہے حصّہ نور کا
بِھیڑ ہے دربار میں، جاری ہے صدقہ نور کا
جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا
نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا
تجھ سے مکّہ نور کا، تجھ سے مدینہ نور کا
تجھ سے قبلہ نور کا، ہے تجھ سے کعبہ نور کا
تجھ سے جس رِشتہ کو نسبت ہے وہ رِشتہ نور کا
تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا
بخت اَللّٰہُ غنی عُثْماں ! تمہارا نور کا
اخترِ قسمت ہے یا ماہِ دو ہفتہ نور کا
خلعتِ نورٌ علٰی نورٍ مِلا کیا نور کا
نور کی سرکار سے پایا دوشالہ نور کا
ہو مبارک تم کو، ذُو النُّورَین ! جوڑا نور کا
چاندنی لاتا جدھر اُنگلی اُٹھاتے مہد میں
نور برساتا جدھر اُنگلی اُٹھاتے مہد میں
با ادب آتا جدھر اُنگلی اُٹھاتے مہد میں
چاند جُھک جاتا جدھر اُنگلی اُٹھاتے مہد میں
کیا ہی چلتا تھا اِشاروں پر کِھلونا نور کا
دونوں تاروں میں ہے خورشیدِ نُبُوَّت کی چمک
دونوں پھولوں میں ہے گُلزارِ رسالت کی مہک
دونوں شہزادوں میں ہے شاہِ دو عالم کی جھلک
ایک سینے تک مُشَابِہ، اِک وہاں سے پاؤں تک
حُسنِ سبطین اِن کے جاموں میں ہے نیما نور کا
یہ ادا، یہ طور، یہ اندازِ شاہِ دو جَہاں
ہو بہُو گویا سراپائے حَسینَ لا مکاں
جیسے شمعِ مَنْ رَآنِي قَدْ رَأَى الْحَق ضَو فِشاں
صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے مِلنے سے عِیاں
خطِّ تَواَم میں لکھا ہے یہ دو وَرقہ نور کا
کس قدر شفّاف ہے آئِیْنَۂ نوری نہاد
جس کے دیکھے سے خدا بیساختہ آتا ہے یاد
بے نیازِ ہر ستایش، ما ورائے حسنِ داد
کٓ گیسو، ہٰ دَہن، یٰ ابرُو، آنکھیں عٓ صٓ
کٓھٰیٰعٓصٓ اُن کا ہے چہرہ نور کا
یہ قصیدہ جو حدِ فکرِ رسا سے دُور ہے
جو مضامیں کی بلندی میں بہت مشہور ہے
میں کروں تخمیس، اختر ! کب مِرا مقدور ہے
بس رضا و احمد نوری کا فیضِ نور ہے
ہو گئی تضمین بھی بڑھ کر قصیدہ نور کا
کلام:
امام احمد رضا خان
تضمین:
مولانااختر الحامدی
نعت خواں:
محمد رفیق رضا قادری رضوی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں