المدد خواجۂ دیں | Al Madad Khwaja-e-Deen Lyrics in Urdu
المدد، خواجۂ دیں
!
ہند کے ماہِ مبیں !
اِک دشت کو خواجہ نے گُلزار بنایا ہے
اِک وادیٔ ظُلمت کو ضَو بار بنایا ہے
اللہ نے خواجہ کو مُختار بنایا ہے
کُل ہند کے ولیوں کا سردار بنایا ہے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
اب قلب و نظر سب کچھ جاگیر تمہاری ہے
ہر دِل کی سطح پر اب تصویر تمہاری ہے
ہو کُفر کی گردن خم کیوں کر نہ تِرے آگے
کردارِ معظّم جب شمشیر تمہاری ہے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
گُل بن کے مہک اُٹّھا، جو تجھ سے جُڑا، خواجہ !
وہ غرق ہُوا سمجھو، جو تجھ سے پھرا، خواجہ !
کیوں کر نہ ہوں گرویدہ ہم تیری بزرگی پر
نازاں ہے تِرے اُوپر جب پیر تیرا، خواجہ !
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
کشمیر سے تامِل تک اُس کا ہی عِلاقہ ہے
بھارت کا ہر اک ذرّہ اُس کا ہی اثاثہ ہے
کُرسی پہ کوئی بیٹھے، کیا اِس سے غرض ہم کو
تا حشر مِرا خواجہ اِس ہند کا راجا ہے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
رحمت کی فضاؤں میں با خیر چلے جاؤ
دُنیا کی محافل سے رُخ پھیر چلے جاؤ
مِلنا ہے اگر تم کو بھارت کے شہنشاہ سے
لو اِذن بریلی سے اجمیر چلے جاؤ
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
لاکھوں کو مِرے خواجہ نے کلمہ پڑھایا ہے
بھارت کے مُقَدّر کو خواجہ نے جگایا ہے
کشکول میں خواجہ نے دریا کو سمایا ہے
اللہ کی قُدرت کا کیا جلوہ دکھایا ہے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
ظُلمت کی نفس کو پھر، یا رب ! تو دُھواں کر دے
اجمیر کے گُلشن سے اب دُور خزاں کر دے
فِتّین مُجاور کو یا راہِ ہدایت دے
یا اِن کو زمانے سے بے نام و نشاں کر دے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
سُورج کو بھی شرما دے ذرّہ مِرے خواجہ کا
دریا کو ڈبو دے اِک قطرہ مِرے خواجہ کا
ہے ہند کی ہر شے پر قبضہ مِرے خواجہ کا
خشکی مِرے خواجہ کی، دریا مِرے خواجہ کا
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
خورشیدِ زمیں تم ہو، مہتابِ گگن تم ہو
زہرا کے لہو، ابنِ سلطانِ زمن تم ہو
اللہ کی رحمت سے بخشش کی کِرن تم ہو
اجمیر کی دھرتی پر اور جلوہ فِگن تم ہو
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
شبّیر نے کربل میں اِس دیں کو بچایا ہے
اِس دین کو خواجہ نے پھر ہند میں لایا ہے
فِتنوں سے رضا نے پھر جب دیں یہ بچایا ہے
تب جا کے کہیں ہم نے اِس دین کو پایا ہے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
گردش سے پریشاں دِل حالات کا مارا ہے
غم اس کو ستائے یہ کب تجھ کو گوارا ہے
طُغیانی میں کشتی ہے اور دُور کِنارا ہے
اے ڈوبتوں کے والی ! اب تیرا سہارا ہے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
ہے گُلشنِ ہستی میں نکہت مِرے خواجہ کی
صد شُکر کہ ہے دِل میں اُلفت مِرے خواجہ کی
کونین میں گر تجھ کو نصرت کی تمنّا ہے
ایّوب شِکستہ ! کر مِدحت مِرے خواجہ کی
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
ایّوب نہ بھولے گا، خواجہ ! تِرے احسان کو
سیراب کِیا تُو نے اُمّت کے گُلستاں کو
پستی سے بلندی دے پھر قومِ مُسلماں کو
تسکینِ اتم دے دے ہر قلبِ پریشاں کو
شاعر:
محمد ایوب رضا امجدی
نعت خواں:
صابر رضا ازہری
حافظ الیاس برکاتی
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
آقا کی عِنایت سے ہر آن ہے خواجہ کا
دریا کی طرح جاری فیضان ہے خواجہ کا
اِک میں ہی نہیں بلکہ کہتا ہے ہر اِک شیدا
بھارت کے مُسلماں پر احسان ہے خواجہ کا
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
مِل جاؤ رضا خاں سے، قِسمت کو جگا دیں گے
وہ شہرِ بریلی سے اِک تم کو پتہ دیں گے
اجمیر چلے جاؤ، بغداد دِکھا دیں گے
پھر غوث پِیا میرے آقا سے مِلا دیں گے
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
جو ہند کا خواجہ ہے، حیدر کا دُلارا ہے
وہ فاطمہ زہرا کے آنکھوں کا سِتارا ہے
قُربان نہ کیوں جائیں ہم اہلِ سُنن اِس پر
ہم اہلِ محبّت کو وہ جان سے پیارا ہے
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
کرتے ہیں ہر اِک لمحہ سرشار مُعین الدّیں
بے تاب نگاہوں کو سرکار مُعین الدّیں
ہم جیسے غریبوں کو تم نظرِ ولایت سے
در غوث کا دِکھلا دو اِک بار، مُعین الدّیں !
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
یہ شادی رچی کِس کی ؟ یہ کون بنا دولہا ؟
لایا گیا جنّت سے کِس ذات کا ہے سہرا ؟
کوئی بھی اگر پُوچھے بتلا دو یہ دُنیا کو
وہ اور نہیں کوئی، ہے میرا پِیا خواجہ
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
مشہود رضا ! گرچہ میں غم کا ستایا ہُوں
دربار میں خواجہ کے فریاد یہ لایا ہُوں
اجمیر کے، اے والی ! یہ تیری عِنایت ہے
دُنیا میں جِدھر دیکھوں اُس سمت اُجالا ہو
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
شاعر:
مشہود رضا
نعت خواں:
نوری میاں احمد رضا
ہند کے ماہِ مبیں !
اِک دشت کو خواجہ نے گُلزار بنایا ہے
اِک وادیٔ ظُلمت کو ضَو بار بنایا ہے
اللہ نے خواجہ کو مُختار بنایا ہے
کُل ہند کے ولیوں کا سردار بنایا ہے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
اب قلب و نظر سب کچھ جاگیر تمہاری ہے
ہر دِل کی سطح پر اب تصویر تمہاری ہے
ہو کُفر کی گردن خم کیوں کر نہ تِرے آگے
کردارِ معظّم جب شمشیر تمہاری ہے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
گُل بن کے مہک اُٹّھا، جو تجھ سے جُڑا، خواجہ !
وہ غرق ہُوا سمجھو، جو تجھ سے پھرا، خواجہ !
کیوں کر نہ ہوں گرویدہ ہم تیری بزرگی پر
نازاں ہے تِرے اُوپر جب پیر تیرا، خواجہ !
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
کشمیر سے تامِل تک اُس کا ہی عِلاقہ ہے
بھارت کا ہر اک ذرّہ اُس کا ہی اثاثہ ہے
کُرسی پہ کوئی بیٹھے، کیا اِس سے غرض ہم کو
تا حشر مِرا خواجہ اِس ہند کا راجا ہے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
رحمت کی فضاؤں میں با خیر چلے جاؤ
دُنیا کی محافل سے رُخ پھیر چلے جاؤ
مِلنا ہے اگر تم کو بھارت کے شہنشاہ سے
لو اِذن بریلی سے اجمیر چلے جاؤ
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
لاکھوں کو مِرے خواجہ نے کلمہ پڑھایا ہے
بھارت کے مُقَدّر کو خواجہ نے جگایا ہے
کشکول میں خواجہ نے دریا کو سمایا ہے
اللہ کی قُدرت کا کیا جلوہ دکھایا ہے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
ظُلمت کی نفس کو پھر، یا رب ! تو دُھواں کر دے
اجمیر کے گُلشن سے اب دُور خزاں کر دے
فِتّین مُجاور کو یا راہِ ہدایت دے
یا اِن کو زمانے سے بے نام و نشاں کر دے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
سُورج کو بھی شرما دے ذرّہ مِرے خواجہ کا
دریا کو ڈبو دے اِک قطرہ مِرے خواجہ کا
ہے ہند کی ہر شے پر قبضہ مِرے خواجہ کا
خشکی مِرے خواجہ کی، دریا مِرے خواجہ کا
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
خورشیدِ زمیں تم ہو، مہتابِ گگن تم ہو
زہرا کے لہو، ابنِ سلطانِ زمن تم ہو
اللہ کی رحمت سے بخشش کی کِرن تم ہو
اجمیر کی دھرتی پر اور جلوہ فِگن تم ہو
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
شبّیر نے کربل میں اِس دیں کو بچایا ہے
اِس دین کو خواجہ نے پھر ہند میں لایا ہے
فِتنوں سے رضا نے پھر جب دیں یہ بچایا ہے
تب جا کے کہیں ہم نے اِس دین کو پایا ہے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
گردش سے پریشاں دِل حالات کا مارا ہے
غم اس کو ستائے یہ کب تجھ کو گوارا ہے
طُغیانی میں کشتی ہے اور دُور کِنارا ہے
اے ڈوبتوں کے والی ! اب تیرا سہارا ہے
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
ہے گُلشنِ ہستی میں نکہت مِرے خواجہ کی
صد شُکر کہ ہے دِل میں اُلفت مِرے خواجہ کی
کونین میں گر تجھ کو نصرت کی تمنّا ہے
ایّوب شِکستہ ! کر مِدحت مِرے خواجہ کی
المدد، خواجۂ دیں !
ہند کے ماہِ مبیں !
ایّوب نہ بھولے گا، خواجہ ! تِرے احسان کو
سیراب کِیا تُو نے اُمّت کے گُلستاں کو
پستی سے بلندی دے پھر قومِ مُسلماں کو
تسکینِ اتم دے دے ہر قلبِ پریشاں کو
شاعر:
محمد ایوب رضا امجدی
نعت خواں:
صابر رضا ازہری
حافظ الیاس برکاتی
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
آقا کی عِنایت سے ہر آن ہے خواجہ کا
دریا کی طرح جاری فیضان ہے خواجہ کا
اِک میں ہی نہیں بلکہ کہتا ہے ہر اِک شیدا
بھارت کے مُسلماں پر احسان ہے خواجہ کا
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
مِل جاؤ رضا خاں سے، قِسمت کو جگا دیں گے
وہ شہرِ بریلی سے اِک تم کو پتہ دیں گے
اجمیر چلے جاؤ، بغداد دِکھا دیں گے
پھر غوث پِیا میرے آقا سے مِلا دیں گے
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
جو ہند کا خواجہ ہے، حیدر کا دُلارا ہے
وہ فاطمہ زہرا کے آنکھوں کا سِتارا ہے
قُربان نہ کیوں جائیں ہم اہلِ سُنن اِس پر
ہم اہلِ محبّت کو وہ جان سے پیارا ہے
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
کرتے ہیں ہر اِک لمحہ سرشار مُعین الدّیں
بے تاب نگاہوں کو سرکار مُعین الدّیں
ہم جیسے غریبوں کو تم نظرِ ولایت سے
در غوث کا دِکھلا دو اِک بار، مُعین الدّیں !
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
یہ شادی رچی کِس کی ؟ یہ کون بنا دولہا ؟
لایا گیا جنّت سے کِس ذات کا ہے سہرا ؟
کوئی بھی اگر پُوچھے بتلا دو یہ دُنیا کو
وہ اور نہیں کوئی، ہے میرا پِیا خواجہ
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
مشہود رضا ! گرچہ میں غم کا ستایا ہُوں
دربار میں خواجہ کے فریاد یہ لایا ہُوں
اجمیر کے، اے والی ! یہ تیری عِنایت ہے
دُنیا میں جِدھر دیکھوں اُس سمت اُجالا ہو
المدد، خواجۂ دیں !
مصطفیٰ کے جانشیں !
شاعر:
مشہود رضا
نعت خواں:
نوری میاں احمد رضا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں