مصطفیٰ کے پالے ہیں ہم بریلی والے ہیں | Mustafa Ke Pale Hain Hum Bareilly Wale Hain Lyrics in Urdu
مصطفیٰ کے پالے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
دل سے بھولے بھالے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
دم رضا کا بھرتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
خواجہ خواجہ کرتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
نعتِ مصطفیٰ پڑھ کے، ذکرِ اولیاء کر کے
چھٹھی ہم مناتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
مسلکِ مُعِینُ الدِّیں ہی رضا کا مسلک ہے
سب کو یہ بتاتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
سُنِّیَت کے جتنے بھی دہر میں سَلاسِل ہیں
اُن سبھی کے نعرے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
مسلکِ رضا سے ہر باطل قوم چِڑتی ہے
حق پر ہیں جو کہتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
ڈگمگا نہیں سکتے مِثلِ صُلْحِ کُلِّی ہم
مُستحکم عقیدے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
صدیق و عمر، عثماں، مرتضیٰ بھی ہیں اپنے
ہر سُو بول بالے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
خادمِ صحابہ ہیں، ہم گدائے اہل بیت
اعتدال والے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
غوث کے ہیں شیدائی، اشرف کے ہیں متوالے
خواجہ کے دِوانے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
دَعْویٔ حُبِّ خواجہ، رافزی کا جھوٹا ہے
خواجہ بس ہمارے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
حامد و رضا، نوری سے جُڑا ہے دل کا تار
اِن سے دل کے رِشتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
مَکرِ طاہر پر اختر نے یہ اُس سے فرمایا
رستے دیکھے بھالے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
سُنِّیوں کے رہبر ہیں علامہ وعسجد اب
یہ دونوں بھی کہتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
دنیا کے کسی خِطّے سے تَعَلُّق ہو لیکن
سب یہیں پُکارے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
سِیم و زَر کی لالچ میں بیچتے ہیں وہ ایماں
سَودے میں خسارے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
ظُلمت کے تَلاطُم کا ہم کو کچھ نہیں کھٹکا
نور ہیں، اجالے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
دہشتِ رضا ہم نے دیکھی وہ مجاور میں
شُکرِ حق بجاتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
باطِلوں سے کہہ دیجے چھیڑے نہ ہمیں، اَیُّوب !
اعلیٰ حضرت والے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
شاعر:
محمد ایوب رضا امجدی
نعت خواں:
صابر رضا ازہری سورت
حافظ غلام مصطفیٰ قادری
دل سے بھولے بھالے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
دم رضا کا بھرتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
خواجہ خواجہ کرتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
نعتِ مصطفیٰ پڑھ کے، ذکرِ اولیاء کر کے
چھٹھی ہم مناتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
مسلکِ مُعِینُ الدِّیں ہی رضا کا مسلک ہے
سب کو یہ بتاتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
سُنِّیَت کے جتنے بھی دہر میں سَلاسِل ہیں
اُن سبھی کے نعرے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
مسلکِ رضا سے ہر باطل قوم چِڑتی ہے
حق پر ہیں جو کہتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
ڈگمگا نہیں سکتے مِثلِ صُلْحِ کُلِّی ہم
مُستحکم عقیدے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
صدیق و عمر، عثماں، مرتضیٰ بھی ہیں اپنے
ہر سُو بول بالے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
خادمِ صحابہ ہیں، ہم گدائے اہل بیت
اعتدال والے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
غوث کے ہیں شیدائی، اشرف کے ہیں متوالے
خواجہ کے دِوانے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
دَعْویٔ حُبِّ خواجہ، رافزی کا جھوٹا ہے
خواجہ بس ہمارے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
حامد و رضا، نوری سے جُڑا ہے دل کا تار
اِن سے دل کے رِشتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
مَکرِ طاہر پر اختر نے یہ اُس سے فرمایا
رستے دیکھے بھالے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
سُنِّیوں کے رہبر ہیں علامہ وعسجد اب
یہ دونوں بھی کہتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
دنیا کے کسی خِطّے سے تَعَلُّق ہو لیکن
سب یہیں پُکارے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
سِیم و زَر کی لالچ میں بیچتے ہیں وہ ایماں
سَودے میں خسارے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
ظُلمت کے تَلاطُم کا ہم کو کچھ نہیں کھٹکا
نور ہیں، اجالے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
دہشتِ رضا ہم نے دیکھی وہ مجاور میں
شُکرِ حق بجاتے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
باطِلوں سے کہہ دیجے چھیڑے نہ ہمیں، اَیُّوب !
اعلیٰ حضرت والے ہیں، ہم بریلی والے ہیں
شاعر:
محمد ایوب رضا امجدی
نعت خواں:
صابر رضا ازہری سورت
حافظ غلام مصطفیٰ قادری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں