خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا | Khwaja-e-Hind Wo Darbar Hai Aala Tera Lyrics in Urdu
خواجۂ ہند ! وہ دَربار ہے اعلیٰ تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا
مَے سر جوش در آغوش ہے شیشہ تیرا
بیخودی چھائے نہ کیوں پی کے پِیالہ تیرا
خفتگانِ شبِ غفلت کو جگا دیتا ہے
سالہا سال وہ راتوں کا نہ سونا تیرا
ہے تِری ذات عجب بحرِ حقیقت پیارے !
کسی تیراک نے پایا نہ کنارا تیرا
جورِ پامالیٔ عالم سے اِسے کیا مطلب
خاک میں مِل نہیں سکتا کبھی ذرّہ تیرا
کِس قدر جوشِ تَحَیُّر کے عیاں ہیں آثار
نظر آیا مگر آئینے کو تلوا تیرا
گُلشنِ ہند ہے شاداب، کلیجے ٹھنڈے
واہ اے اَبرِ کرم ! زور بَرسنا تیرا
کیا مہک ہے کہ مُعَطَّر ہے دماغِ عالم
تختۂ گُلشنِ فردوس ہے روضہ تیرا
تیرے ذرّہ پہ مَعاصی کی گھٹا چھائی ہے
اِس طرف بھی کبھی اے مہر! ہو جلوہ تیرا
تجھ میں ہیں تربیتِ خضر کے پیدا آثار
بحر و بر میں ہمیں مِلتا ہے سہارا تیرا
پھر مجھے اپنا درِ پاک دِکھا دے پیارے!
آنکھیں پُر نُور ہوں پھر دیکھ کے جلوہ تیرا
ظلِ حق غوث پہ ہے، غوث کا سایہ تجھ پر
سایہ گستر ! سرِ خُدّام پہ سایہ تیرا
تجھ کو بغداد سے حاصل ہوئی وہ شانِ رَفیع
دنگ رہ جاتے ہیں سب دیکھ کے رُتبہ تیرا
کیوں نہ بغداد میں جاری ہو تِرا چشمۂ فیض
بحرِ بغداد ہی کی نہر ہے دریا تیرا
کرسی ڈالی تِری تختِ شہِ جیلاں کے حضور
کتنا اُونچا کِیا اللہ نے پایا تیرا
رَشک ہوتا ہے غُلاموں کو کہیں آقا سے
کیوں کہوں رشکِ دہِ بدر ہے تلوا تیرا
بشر افضل ہیں مَلک سے تیری یوں مدح کروں
نہ مَلک خاص بشر کرتے ہیں مُجرا تیرا
جب سے تُو نے قدمِ غوث لِیا ہے سر پر
اَولیا سر پہ قدم لیتے ہیں، شاہا ! تیرا
محیِ دیں غوث ہیں اور خواجہ مُعینُ الدّیں ہے
اے حسن ! کیوں نہ ہو محفوظ عقیدہ تیرا
شاعر:
مولانا حسن رضا خان
نعت خواں:
اویس رضا قادری
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا
مَے سر جوش در آغوش ہے شیشہ تیرا
بیخودی چھائے نہ کیوں پی کے پِیالہ تیرا
خفتگانِ شبِ غفلت کو جگا دیتا ہے
سالہا سال وہ راتوں کا نہ سونا تیرا
ہے تِری ذات عجب بحرِ حقیقت پیارے !
کسی تیراک نے پایا نہ کنارا تیرا
جورِ پامالیٔ عالم سے اِسے کیا مطلب
خاک میں مِل نہیں سکتا کبھی ذرّہ تیرا
کِس قدر جوشِ تَحَیُّر کے عیاں ہیں آثار
نظر آیا مگر آئینے کو تلوا تیرا
گُلشنِ ہند ہے شاداب، کلیجے ٹھنڈے
واہ اے اَبرِ کرم ! زور بَرسنا تیرا
کیا مہک ہے کہ مُعَطَّر ہے دماغِ عالم
تختۂ گُلشنِ فردوس ہے روضہ تیرا
تیرے ذرّہ پہ مَعاصی کی گھٹا چھائی ہے
اِس طرف بھی کبھی اے مہر! ہو جلوہ تیرا
تجھ میں ہیں تربیتِ خضر کے پیدا آثار
بحر و بر میں ہمیں مِلتا ہے سہارا تیرا
پھر مجھے اپنا درِ پاک دِکھا دے پیارے!
آنکھیں پُر نُور ہوں پھر دیکھ کے جلوہ تیرا
ظلِ حق غوث پہ ہے، غوث کا سایہ تجھ پر
سایہ گستر ! سرِ خُدّام پہ سایہ تیرا
تجھ کو بغداد سے حاصل ہوئی وہ شانِ رَفیع
دنگ رہ جاتے ہیں سب دیکھ کے رُتبہ تیرا
کیوں نہ بغداد میں جاری ہو تِرا چشمۂ فیض
بحرِ بغداد ہی کی نہر ہے دریا تیرا
کرسی ڈالی تِری تختِ شہِ جیلاں کے حضور
کتنا اُونچا کِیا اللہ نے پایا تیرا
رَشک ہوتا ہے غُلاموں کو کہیں آقا سے
کیوں کہوں رشکِ دہِ بدر ہے تلوا تیرا
بشر افضل ہیں مَلک سے تیری یوں مدح کروں
نہ مَلک خاص بشر کرتے ہیں مُجرا تیرا
جب سے تُو نے قدمِ غوث لِیا ہے سر پر
اَولیا سر پہ قدم لیتے ہیں، شاہا ! تیرا
محیِ دیں غوث ہیں اور خواجہ مُعینُ الدّیں ہے
اے حسن ! کیوں نہ ہو محفوظ عقیدہ تیرا
شاعر:
مولانا حسن رضا خان
نعت خواں:
اویس رضا قادری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں