اللہ نے بخشا ہے شرف تجھ کو یگانہ حسنین کے نانا | Allah Ne Bakhsha Hai Sharaf Tujh Ko Yagana Hasnain Ke Nana Lyrics in Urdu
اللہ نے بخشا ہے شرف تجھ کو یگانہ، حسنین کے نانا
!
اے بانیٔ اسلام، اے سلطانِ زمانہ، حسنین کے نانا !
کہتا ہے یہی آپ کا ہر ایک دِوانہ، حسنین کے نانا !
ایمان کی کشتی کو مِرے پار لگانا، حسنین کے نانا !
کونین کے ہر ذرّے پہ ہے تیری حکومت، مولیٰ کی بدولت
ہے تیرے تصرُّف میں ہی رحمت کا خزانہ، حسنین کے نانا !
دریائے سخاوت ہے تیرا جوش پہ ہر دم، اے رحمتِ عالم !
دو بُوند مجھے اُس میں سے لِلّٰہ پلانا، حسنین کے نانا !
پیشانٸ دل کیوں نہ جھکے اہلِ وِلا کی، مخلوقِ خدا کی
جب مرکزِ الفت ہے درِ شاہِ زمانہ، حسنین کے نانا !
وہ طرزِ سخاوت ہو، شُجاعت یا طہارت، یا شوقِ شہادت
ہر وصف میں مُمتاز ہے تیرا ہی گھرانہ، حسنین کے نانا !
میں دیکھ لوں اے کاش ! کبھی گنبدِ خضریٰ، اے والیٔ طیبہ!
اک بار مجھے اپنے مدینے میں بُلانا، حسنین کے نانا !
سرکار ! کبھی جامِ نظر مجھ کو پلا کر، ہاں خواب میں آ کر
لِلّٰہ مِرا سویا ہوا بخت جگانا، حسنین کے نانا !
صِدِّیق نے، فاروق نے، عثمان و علی نے، ہر ایک ولی نے
پایا ہے تِرے در سے طریقت کا خزانہ، حسنین کے نانا !
اِیثار و محبّت کا ہمیں غوث و رضا نے، اور خواجہ پیا نے
کیا خوب پڑھایا ہے سبق تیرا سہانا، حسنین کے نانا !
ہر بات بگاڑی ہے مِری نفس و زباں نے، عصیاں کی خزاں نے
زہرا کے تصدُّق مِری بگڑی کو بنانا، حسنین کے نانا !
اے آہ ! کہ کچھ حسنِ عمل پاس نہیں ہے، کچھ آس نہیں ہے
طغیانٸ محشر سے مجھے تم ہی بچانا، حسنین کے نانا !
دنیائے سخن میں اِسے پہچان ملی ہے، کیا شان ملی ہے
جب سے لبِ ایُّوب پہ ہے تیرا ترانہ، حسنین کے نانا !
شاعر:
محمد ایوب رضا امجدی
نعت خواں:
صابر رضا ازہری صورت
اے بانیٔ اسلام، اے سلطانِ زمانہ، حسنین کے نانا !
کہتا ہے یہی آپ کا ہر ایک دِوانہ، حسنین کے نانا !
ایمان کی کشتی کو مِرے پار لگانا، حسنین کے نانا !
کونین کے ہر ذرّے پہ ہے تیری حکومت، مولیٰ کی بدولت
ہے تیرے تصرُّف میں ہی رحمت کا خزانہ، حسنین کے نانا !
دریائے سخاوت ہے تیرا جوش پہ ہر دم، اے رحمتِ عالم !
دو بُوند مجھے اُس میں سے لِلّٰہ پلانا، حسنین کے نانا !
پیشانٸ دل کیوں نہ جھکے اہلِ وِلا کی، مخلوقِ خدا کی
جب مرکزِ الفت ہے درِ شاہِ زمانہ، حسنین کے نانا !
وہ طرزِ سخاوت ہو، شُجاعت یا طہارت، یا شوقِ شہادت
ہر وصف میں مُمتاز ہے تیرا ہی گھرانہ، حسنین کے نانا !
میں دیکھ لوں اے کاش ! کبھی گنبدِ خضریٰ، اے والیٔ طیبہ!
اک بار مجھے اپنے مدینے میں بُلانا، حسنین کے نانا !
سرکار ! کبھی جامِ نظر مجھ کو پلا کر، ہاں خواب میں آ کر
لِلّٰہ مِرا سویا ہوا بخت جگانا، حسنین کے نانا !
صِدِّیق نے، فاروق نے، عثمان و علی نے، ہر ایک ولی نے
پایا ہے تِرے در سے طریقت کا خزانہ، حسنین کے نانا !
اِیثار و محبّت کا ہمیں غوث و رضا نے، اور خواجہ پیا نے
کیا خوب پڑھایا ہے سبق تیرا سہانا، حسنین کے نانا !
ہر بات بگاڑی ہے مِری نفس و زباں نے، عصیاں کی خزاں نے
زہرا کے تصدُّق مِری بگڑی کو بنانا، حسنین کے نانا !
اے آہ ! کہ کچھ حسنِ عمل پاس نہیں ہے، کچھ آس نہیں ہے
طغیانٸ محشر سے مجھے تم ہی بچانا، حسنین کے نانا !
دنیائے سخن میں اِسے پہچان ملی ہے، کیا شان ملی ہے
جب سے لبِ ایُّوب پہ ہے تیرا ترانہ، حسنین کے نانا !
شاعر:
محمد ایوب رضا امجدی
نعت خواں:
صابر رضا ازہری صورت
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں