دامن میں یوں چھپا لو دگر کو خبر نہ ہو | پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو تضمین کے ساتھ | Daman Mein Yun Chhupa Lo Digar Ko Khabar Na Ho Lyrics in Urdu
دامن میں یوں چھپا لو دِگر کو خبر نہ ہو
حور و ملک کو جِنّ و بشر کو خبر نہ ہو
جنّت میں ایسے پہنچوں سقر کو خبر نہ ہو
پُل سے اُتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو
جبریل پر بچھائیں تو پر کو خبر نہ ہو
بجھ جائے اب کہیں نہ چراغ انتظار کا
جز تیرے کوئی اور نہیں دل فگار کا
جائے خزاں میں دیکھ لُوں اب منہ بہار کا
کانٹا مِرے جگر سے غَمِ روزگار کا
یُوں کِھینچ لیجئے کہ جِگر کو خبر نہ ہو
اُمّت سے پیار تیرا نہ آئے شُمار میں
رکّھا نہ ایک پل بھی کبھی انتظار میں
بے چین قلب آیا اُسی پل قرار میں
فریاد اُمّتی جو کرے حالِ زار میں
ممکن نہیں کہ خیرِ بشر کو خبر نہ ہو
در در کی ٹھوکروں سے، خدایا ! بچا ہمیں
صدقہ حَسن حُسین کا کر دے عطا ہمیں
دنیا کے رنج و غم سے تُو کر دے رہا ہمیں
ایسا گُما دے اُن کی ولا میں خدا ہمیں
ڈھونڈھا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو
جن کا مقام کرتے بیاں ہوں شۂ زماں
کیسے پھر اُن کی شان بیاں کر سکے زباں
خود مصطفیٰ نے مولیٰ علی پر کِیا عیاں
فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردارِ دو جہاں
اے مُرتضیٰ ! عتیق و عُمر کو خبر نہ ہو
یہ عشق ہی تو ہے جو سبق ہم کو یہ پڑھائے
یہ عشق ہی تو ہے جو ہمیں راز یہ سکھائے
ہدِّ ادب یہ عشق ستم جتنے دل پہ کھائے
یہ عشق کا اُصول ہے نکلے نہ لب سے ہاے
اے خارِ طیبہ ! دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے
یُوں دِل میں آ کہ دیدۂ تر کو خبر نہ ہو
ایمان ہے کہ کوئی خدا سے بڑا نہیں
محبوب ہیں خدا کے وہ لیکن خدا نہیں
حکم شرع میں سجدہ بھی اُن کو کِیا نہیں
اے شوقِ دل ! یہ سجدہ گر اُن کو روا نہیں
اچّھا ! وہ سجدہ کیجے کہ سر کو خبر نہ ہو
احباب، عُبید ! جان چھڑکتے ہیں جو یہاں
ہو نگے بہ روزِ حشر کسی کے بھی وہ کہاں
ماں باپ کام آئیں نہ اولاد ہی وہاں
اُن کے سِوا، رضا ! کوئی حامی نہیں جہاں
گُزرا کرے پِسر پہ پِدر کو خبر نہ ہو
کلام:
امام احمد رضا خان
تضمین:
اویس رضا قادری
نعت خواں:
اویس رضا قادری
علامہ حافظ بلال قادری
حور و ملک کو جِنّ و بشر کو خبر نہ ہو
جنّت میں ایسے پہنچوں سقر کو خبر نہ ہو
پُل سے اُتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو
جبریل پر بچھائیں تو پر کو خبر نہ ہو
بجھ جائے اب کہیں نہ چراغ انتظار کا
جز تیرے کوئی اور نہیں دل فگار کا
جائے خزاں میں دیکھ لُوں اب منہ بہار کا
کانٹا مِرے جگر سے غَمِ روزگار کا
یُوں کِھینچ لیجئے کہ جِگر کو خبر نہ ہو
اُمّت سے پیار تیرا نہ آئے شُمار میں
رکّھا نہ ایک پل بھی کبھی انتظار میں
بے چین قلب آیا اُسی پل قرار میں
فریاد اُمّتی جو کرے حالِ زار میں
ممکن نہیں کہ خیرِ بشر کو خبر نہ ہو
در در کی ٹھوکروں سے، خدایا ! بچا ہمیں
صدقہ حَسن حُسین کا کر دے عطا ہمیں
دنیا کے رنج و غم سے تُو کر دے رہا ہمیں
ایسا گُما دے اُن کی ولا میں خدا ہمیں
ڈھونڈھا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو
جن کا مقام کرتے بیاں ہوں شۂ زماں
کیسے پھر اُن کی شان بیاں کر سکے زباں
خود مصطفیٰ نے مولیٰ علی پر کِیا عیاں
فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردارِ دو جہاں
اے مُرتضیٰ ! عتیق و عُمر کو خبر نہ ہو
یہ عشق ہی تو ہے جو سبق ہم کو یہ پڑھائے
یہ عشق ہی تو ہے جو ہمیں راز یہ سکھائے
ہدِّ ادب یہ عشق ستم جتنے دل پہ کھائے
یہ عشق کا اُصول ہے نکلے نہ لب سے ہاے
اے خارِ طیبہ ! دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے
یُوں دِل میں آ کہ دیدۂ تر کو خبر نہ ہو
ایمان ہے کہ کوئی خدا سے بڑا نہیں
محبوب ہیں خدا کے وہ لیکن خدا نہیں
حکم شرع میں سجدہ بھی اُن کو کِیا نہیں
اے شوقِ دل ! یہ سجدہ گر اُن کو روا نہیں
اچّھا ! وہ سجدہ کیجے کہ سر کو خبر نہ ہو
احباب، عُبید ! جان چھڑکتے ہیں جو یہاں
ہو نگے بہ روزِ حشر کسی کے بھی وہ کہاں
ماں باپ کام آئیں نہ اولاد ہی وہاں
اُن کے سِوا، رضا ! کوئی حامی نہیں جہاں
گُزرا کرے پِسر پہ پِدر کو خبر نہ ہو
کلام:
امام احمد رضا خان
تضمین:
اویس رضا قادری
نعت خواں:
اویس رضا قادری
علامہ حافظ بلال قادری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں